Tuesday, 17 April 2012

علامہ سیّد غلام حسن شاہ کاظمی اور لفظ ’’ پاکستان ‘‘



علامہ سیّد غلام حسن شاہ کاظمی اور لفظ ’’ پاکستان ‘‘


تحریر :      سردار ذوالفقار علی
                وائس چیرمین پریس فاؤنڈیشن آزاد کشمیر

 ۲۷مارچ ۲۰۱۱ء کو معروف ادیب دانشور اور محقق جناب عقیل عباس جعفری کی سنڈے ایکپریس میں سپیشل رپورٹ چھپی۔ جس کا عنوان تھا۔ لفظ ’’پاکستان‘‘ کا خالق کون؟ چوہدری رحمت علی، خواجہ عبدالرحیم یا علامہ غلام حسن شاہ کاظمی ؒ؟ اس فیچر کی اشاعت کے بعد بعض حلقوں میں اس امر کی ضرورت سمجھی گئی کہ لفظ ’’پاکستان‘‘ کے احیاء اور اس کے اوّلین خالق کی نسبت پاکستان کی تاریخ کو درست کیا جائے۔ متذکرہ فون فیچر کی اشاعت سے پاکستان کی تاریخ کے طالب علموں اور دیگر ریسرچ اسکالرز کو بیش قیمت معلومات میسر آئیں۔
          پاکستان بھر میں سال 2011 کے دوران لکھے جانے والے کالموں اور فیچرز پر آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (APNS) نے جناب عقیل عباس جعفری کو علامہ غلام حسن شاہ کاظمی ؒ پر لکھے جانے والے فیچر کے سلسلہ میں انعام اور ایوارڈ کے لیے منتخب کیا، جس کی تقریب16 اپریل 2012 کو ایوان صدر اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ جس میں صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری صاحب نے انعامات اور ایوارڈ تقسیم کئے۔ جناب عقیل عباس جعفری صاحب نے جس عرق ریزی اور تحقیق کے احسن اسلوب سے کام لے کر لفظ ’’پاکستان‘‘ کے اوّلین خالق کا تعین فرمایا ہے اس کے لیے وہ ہدیۂ تبریک کے مستحق ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ APNSبھی لائق تحسین ہے۔
                APNS ایوارڈز کی نسبت جناب عقیل عباس جعفری صاحب کو 16رُکنی ججز کے جس پینل نے ایوارڈ اور انعام کے لیے منتخب کیا اس میں پاکستان کی گراں مایہ مقتدر شخصیات شامل ہیں۔ جن کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں۔
                -1          محترمہ امینہ سید صاحبہ، منیجنگ ڈائریکٹر آکسفورڈ یونیورسٹی پریس۔
                -2           جناب پروفیسر ڈاکٹر نثار زبیری صاحب، یونیورسٹی آف کراچی۔
                -3           جناب بابر ایاز صاحب، منیجنگ ڈائریکٹر میڈئیٹر (PVT) لمیٹیڈ کراچی
                -4           جناب ڈاکٹر رافیہ تاج صاحبہ، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ماس کمیونکیشن کراچی یونیورسٹی
                -5           جناب پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد برفات صاحب، کراچی یونیورسٹی۔
                -6           محترمہ مسز مہتاب اکبر راشدی صاحبہ، آئی ٹیلویژن نیٹ ورک۔
                -7           جناب ڈاکٹر مغیث الدین شیخ صاحب، سپیرئیر یونیورسٹی۔
                -8           جناب جسٹس ناصر اسلم زاہد صاحب۔
                -9           جناب اویس اسلم علی صاحب، پاکستان پریس انٹرنیشنل۔
                -10        جناب پروفیسر توصیف احمد خان صاحب،فیڈرل اردو یونیورسٹی۔
                -11       جناب رام والا بھہ صاحب۔
                -12        محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ حسین صاحبہ، چیئرپرسن سندھ لینگویج اتھارٹی۔
                -13        جناب سید اقبال شاہ صاحب، کمشنر ,Coord & Dyانٹرنیشل پاکستان اسکاوٹ ایسوسی ایشن۔
                -14        جناب یعقوب مغل صاحب۔
                -15        محترمہ سیمیں نغمانہ صاحبہ، ڈین فیکلٹی آف آرٹس، فیڈرل اردو یونیورسٹی ۔
                -16        پروفیسر شاہدہ قاضی صاحبہ، ڈیپارٹمنٹ آف میڈیا سٹڈیز،انسٹیوٹ آف بزنس منیجمنٹ۔
               متذکرہ بالا ججز نے جن صحافیوں اور قلمکاروں کو ایوارڈز کا مستحق قرار دیا ان میں جناب ندیم محمود صاحب روزنامہ ’’امت‘‘ جناب مبارک زیب خان صاحب روزنامہ ’’ڈان‘‘ محترمہ رضیہ فرید صاحبہ روزنامہ ’’جنگ‘‘ جناب زہرہ یوسف صاحبہ ماہنانہ ’’نیوز لائین‘‘ ’’جناب سردار احمد پیرزادہ صاحب روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ جناب اشفاق اظہر صاحب روزنامہ ’’کاوش‘‘ جناب مقبول احمد صاحب ماہنامہ ’’ہیرالڈ‘‘ جناب مراد علی شاہ صاحب روزنامہ ’’عبرت‘‘ اور جناب زاہد رحمان صاحب روزنامہ ’’دی نیوز انٹرنیشنل‘‘  کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (APNS) کی انتظامی کمیٹی نے صحافتی امور سے متعلق حسن کارکردگی پر جناب عبدالرشید غازی صاحب، پیر سفید شاہ ہمدرد صاحب، جناب مقصود حسین شاہ صاحب، جناب مسعود احمد برکتی صاحب، جناب ضیاء الدین اور جناب محمد سلیم پی، آئی، او۔ پی، آئی، ڈی، اسلام آباد کو بھی ایوارڈز کا مستحق قرار دیا۔
               علامہ غلام حسن شاہ کاظمی ؒ نے 1928 ء میں ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد کو ’’پاکستان‘‘ اخبار کے ڈیکلریشن کے لیے درخواست دی۔ منظوری نہ ہو نے کی اطلاع آپ کو بمبئی میں دے دی گئی۔ 1931 ء میں آپ روزنامہ ’’زمیندار‘‘ لاہور سے منسلک تھے۔ اس دوران فارن ریلیشنز آرڈنینس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مورخہ 07.06.1931 اور 17.05.1931 کو آپ نے افغان حکومت کے خلاف اداریے اور مضامین لکھے، جن کی پاداش میں بروئے مسل نمبر 35/3 مقدمہ بعنوان ’’کرائون بنام غلام حسن شاہ کاظمی‘‘ مورخہ 01.06.1931 کو شیخ عبدالحمید مجسٹریٹ درجہ اول لاہور کی عدالت میں چالان ہوا۔ متذکرہ مقدمہ کے صفحہ نمبر1 کی ابتدائی سطور میں بذیل عبارت درج ہے۔
"There are two cases against the Present accused Gulam Hassan Shah, the Editor, Printer and Publisher of the Daily "Zamidar" Lahore, under section 2 of ordinance IV of 1931".
            متذکرہ مقدمہ کا فیصلہ مورخہ 31.08.1931 کو صادر کیا گیا۔ علامہ کاظمی ؒنے الزامات کی تردید کے بجائے حریت کیشی پر مبنی طرز عمل اختیار کیا۔ متذکرہ بالا فیصلہ کے صفحہ نمبر2 کے دوسرے پیراگراف میں حسب ذیل عبارت درج ہے۔ 
"The accused admits is having filed the declaration, Ex. P.L, and his having worked as Editor, printer and Publisher of "Zamindar", during the period stated above his only Plea is that the Publication of the articals, Ex. BP.C/1 and P.D/1 did not violate section 2 of the ordence IV of 1931. The question whether the Publication of the aforesaid articals offends against section 2 ordinance IV of 1931 or not".
شیخ عبدالحمید کی  عدالت نے علامہ کاظمی ؒ کو سزا دیتے ہوئے بذیل عبارت لکھی۔
 ـ"The case as established by the prosecution stands unrebutted by the accused. I, therefore, find him guilty under section 2 of ordinance IV of 1931 and sentence him to one year, rigorous imperisonment under each head. The sentences will run concurrently.
 سزا  سے  دو چار کرنے والے جج نے اپنے فیصلہ کے آخر میں ایک نوٹ بھی لکھا۔
                "The accused is a respectable man of lower Middle Class, and is educated. I, therefore, recommend that he should be treated as "B" class prisoner".
                   علامہ کاظمی ؒ مرحوم کا زمانہ اسیری بورسٹل جیل لاہور، منٹگمری ملتان اور کیمل پور میں گزرا، دوران اسیری، بیوی اور بچے فوت ہو گئے۔ ان سانحات کی اطلاع مولانا غلام ربانی لودھی نے پوسٹ کارڈ کے ذریعے جیل میںپہنچائی۔ پوسٹ کارڈ علامہ مرحوم کی لائبریری میں محفوظ ہے۔
                جناب عقیل عباس جعفری صاحب سے قبل جناب سبط حسن ضغیم مرحوم نے ’’لفظ پاکستان کا خالق کون؟‘‘ کے عنوان سے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے سنڈے میگزین مورخہ 26 مارچ 2006 میں ایک رپورٹ شائع کی۔ جناب ضغیم مرحوم نے دستاویزی ثبوت کے ساتھ یہ بات ثابت کی کہ لفظ ’’پاکستان‘‘ کے اولین خالق اور شارح علامہ کاظمی ؒ ہی ہیں۔
                 علامہ کاظمی ؒ لفظ پاکستان اور تحریک پاکستان کے احیاء کے لیے مسلسل کام کرتے رہے ،1931ء میں جب فارن ریلیشنزآرڈنینس کے تحت سزا کاٹ چکے تو خفیہ اداروں نے ان کے سزا یافتہ ہونے کی نسبت ڈپٹی کمشنر ہزارہ کو آگاہ کر دیا۔ اس طرح ’’پاکستان‘‘ اخبار کا ڈیکلریشن سزا یافتہ ہونے کی وجہ سے منظور نہ ہو سکا، بالآخر 1935ء کا ایکٹ نافذ ہوگیا۔ متذکرہ ایکٹ کے نفاذ کے بعد صوبائی حکومتوں کو کچھ کچھ آزادی ملی، اسطرح 1936 ء میں ’’پاکستان‘‘ کا ڈیکلریشن منظور ہوا۔ یکم مئی 1936 ء کو ’’پاکستان‘‘ کا پہلا شمارہ ایبٹ آباد سے شائع ہوا۔ جس کی پیشانی پر یہ شعر درج تھا۔؎
مرا اگرچہ بت خانہ پرورش دادند
چکیداز لب من آنکہ در دل حرم است
 ’’پاکستان‘‘ اخبار 1938 ء تک چھپتا تو رہا لیکن کانگریس کے مسلسل حملوں کی زد میں رہا۔ آخرکار 1938ء کے اواخر میں اس اخبار کا ڈیکلریشن منسوخ کر دیا گیا۔
 ’’پاکستان‘‘ اخبار کی اشاعت اور تفصیلات کا تذکرہ کرتے ہوئے معروف ادیب اور انشا پرداز جناب رحمن صدیقی مرحوم ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ لاہور اگست 1980ء کے صفحہ 43 پر یوں رقم طراز ہیں۔
 ’’صوبہ سرحد کی سیاسیات اور برصغیر کی ادبی و صحافتی تاریخ کے حوالہ سے اس اخبار کی یادگاری حیثیت، نمایاں ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس زمانہ کے مخصوص احوال کے مطابق یہاں تک کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے مقصد کو قومی حیثیت سے مسلمانوں میں راسخ کرنے کی جو غیر رسمی اور انفرادی کوششیں مسلم لیگ کی جانب سے واضح طور پر پاکستان کو اپنا نعرہ قرار دینے سے قبل ہو رہی تھیں۔ ان میں سرحد کے اس ’’پاکستان‘‘’ نام کے اخبار کو یقینا ایک خاص تاریخی حیثیت حاصل ہے۔
             اس ہفتہ روزہ کے مالک و مدیر بھی اس دور کے مشہور تاریخ ساز ادارے مولانا ظفر علی خان کے اخبار ’’زمیندار‘‘ کے حلقہ سے تیار ہو کر آئے وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو اپنی حریت کیشی میں نمایاں مقام حاصل کر چکا تھاـ‘‘۔
           لفظ ’’پاکستان‘‘ کے اولین خالق کی نسبت بعض احباب خواجہ عبدالرحیم کو اس کا موُجد یا مجوز قرار دیتے رہے ہیں‘‘بعض چوہدری رحمت علی مرحوم کو اس اعزاز سے متصف کرتے رہے، لیکن تاریخی حقائق کی جو ترجمانی جناب عقیل عباس جعفری صاحب، جناب سبط حسن ضغیم اور جناب پروفیسر عبدالحمید کریمی صاحب نے کی ہے۔ اس کی تردید ممکن نہ ہے۔
              یونیورسٹی آف آزاد جموں وکشمیر کے شعبہ انسٹیٹیو ٹ آف کشمیر سٹڈیزکے سہ ماہی مجلے ’’شاردہ‘‘ کی اشاعت جولائی /ستمبر 2010 میں معروف محقق جناب پروفیسر عبدالحمید کریمی صاحب  نے انگریزی زبان میں تحقیقی مقالہ بہ عنوان The primordial user of word Pakistan لکھا جس میں علامہ کاظمی مرحوم کو کشمیر کا مولانا ابوالکلام اور مولانا ظفر علی خان قرار دیا گیا وہ سہ ماہی ’’شاردہ‘‘ کے صفحہ نمبر8 پر یوں رقم طرازہیں۔
The chronology of the word Pakistan in terms of coming into documentary usages is not a mystery. Chaudhary Rehmat Ali's document "Now or Never" is abviously the document of 1933. So it is crystal clear that neither was he the first to invent the word nor was he the first man to use it. But is easy to peep into the histry of the past decades and see that a forgotten veteran scholar and renowned juniorlist of his age Maulana Syed Ghulam Hassan Shah Kazmi, whose prowers of superiority as editor the Daily "Zamindar" was being acknowledged through out the Indo-Pak Sub-contenant was the foremost person who had used the word pakistan. There is no contrary evidence avialable in this behalf. 
           آزاد کشمیر کے سابق ایڈووکیٹ جنرل جناب راجہ گل مجید صاحب عرصہ پہلے روزنامہ ’’ جنگ‘‘ میں ایک کالم لکھتے ہوئے لفظ ’’پاکستان‘‘ کے خالق علامہ غلام حسن شاہ کاظمی مرحوم کی خدمات کو حکومتی سطح پر جائز تاریخی مقام نہ دینے پر یوں رقم طراز ہیں۔
’’مرحوم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے پہلی بار لفظ ’’پاکستان‘‘ استعمال کرتے ہوئے، ایک اخبار نکالا۔ لیکن مرحوم نے کبھی اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش نہ کی۔ بلکہ گمنامی کی زندگی کو ترجیح دی………………… کشمیریوں کا مختلف حوالوں اور ادوار میں استحصال کیا جاتا رہاہے۔ اس تاریخی حقیقت کو چھپا کر کشمیریوں کے ساتھ ایک اور ستم کیا گیا لفظ ’’پاکستان‘‘ کے خالق بھی کشمیری ہی ہیں………………‘‘۔
          لفظ ’’پاکستان‘‘ کے پس منظر میں ’’قراقل پاک ستان‘‘ کی کہانی اور اس تناظر میں خواجہ عبدالرحیم کا لفظ ’’پاکستان‘‘ مجوز کرنا تاریخی اسناد اور دستاویزات سے یکسر محروم ہے۔ البتہ چوہدری رحمت علی مرحوم کا پمفلٹ "Now or never"  جو اپیل کے پیرایہ میں لکھا گیا تھا۔ جنوری 1933 میں برطانیہ سے شائع ہوا۔ متذکرہ پمفلٹ کو انٹر نیٹ سے ڈائون لوڈ کر کے دیکھا گیا مگر اس پمفلٹ میں کہیں بھی لفظ ’’پاکستان‘‘ نہیں ہے۔ البتہ 4 جگہوں  پر لفظ ’’پاک ستان‘‘ ضرور لکھا گیا ہے۔ اسطرح لفظ پاکستان کی موجودہ املاء کا کسی طور پر مجوز چوہدری رحمت علی مرحوم کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔Now or never کے ساتھ چوہدری رحمت علی مرحوم نے جو مکتوب محررہ 28 جنوری 1933 شامل کیا تھا۔ اس میں صرف ایک مرتبہ ’’پاک ستان‘‘ کا لفظ استعمال کیاگیا۔ متذکرہ مکتوب کی پہلی سطر ملاحظہ ہو ۔
"I am enclosing herewith an apeal on behalf of the thrity million Muslims of "Pakstan".
             اپیل سے چوہدری صاحب کی مراد Now or Never کا پمفلٹ تھا۔
           چوہدری رحمت علی مرحوم کی خدمات کا اعتراف اپنی جگہ، لیکن اس تاریخی حقیقت کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے کہ لفظ ’’پاکستان‘‘ کی موجودہ املاء کے اولین مجوز اور شارح علامہ کاظمیؒ ہیں۔ یہاں یہ امر درج کرنا بھی ضروری ہے کہ چوہدری رحمت علی سے منسوب Now or neverکے خالق صرف رحمت علی ہی نہیں بلکہ محمد اسلم خان خٹک، صدر خیبریونین ، عنایت اللہ خان، ساکنہ چار سدہ، سیکرٹری خیبر یونین اور شیخ محمد صادق صاحبزادہ کے بھی اس پمفلٹ پر دستخط ثبت ہوئے تھے۔ گمان غالب یہ ہے کہ محمد اسلم خان خٹک اور عنایت اللہ خان آف چارسدہ چونکہ صوبہ سرحد سے انگلستان پہنچے تھے۔ یقینا اُن حضرات نے مولانا غلام ربانی لودھی کے اخبار ’’خیبر ‘‘راولپنڈی 1928 کے دورانیہ میں ’’پاکستان‘‘ اخبار کی نسبت ڈیکلریشن کے استرداد کی خبر پڑھی ہو گی جو ان کے حافظہ میں موجود رہی ہوگی۔ جس کی وجہ سے Now or never  لکھا گیا۔
               علامہ مرحوم نے تقریباً دو صد پچاس (250) کتابیں تصنیف کیں۔ اس وقت تک تقربیاً 18 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ آپ کو عربی، فارسی، انگریزی پشتو، اردو اور ہندوستان کی کئی دیگر علاقائی زبانوں پر کامل دسترس تھی۔
             آپ 14ستمبر 1984 کو ایبٹ آباد میں وفات پا کر مظفرآباد آزاد کشمیر کے مضافاتی گائوں ٹھنگرشریف میں آسودہ خاک ہوئے۔آپ کی لوح مزار پر یہ شعر لکھا ہے۔
ایں کہ منم غلام حسن شاہ کاظمی
درویش بے گلیم وگدا بے گدا گری
                               
               اس دورویش صفت مرد قلندر نے اپنی کتاب ’’انقلاب کشمیر‘‘ مطبوعہ 1951 ء میں لفظ پاکستان کی نسبت اپنے تاثرات قلمبند کئے ہیں۔ آپ گراں قدر علمی و تحقیقی سرمایہ وراثت میں چھوڑنے کے باوجود تمام عمر نمودو نمائش سے گریزاں رہے۔
              حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کے لیے ضروری ہے کہ وہ لفظ ’’پاکستان‘‘ کی نسبت ریکارڈ کو درست کریں کیونکہ اب دستاویزات نے اس بات کو حتمی طور پرطے کر دیا ہے کہ لفظ ’’پاکستان‘‘ کے اولین خالق کشمیری ہیں۔ حکومت آزاد کشمیر اور حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ علامہ کے مزار شریف تک جانے والی سٹرک کو پختہ کروائے، علامہ مرحوم کے غیر مطبوعہ مسودات کی طباعت کروائے۔ علامہ کے لواحقین کی حوصلہ افزائی کے لیے ضروری اقدامات کرے اور علامہ کاظمی مرحوم کی لائبریری میں موجود ’’پاکستان‘‘ اخبار کی فائل کو محفوظ کروائے۔ ’’پاکستان‘‘ اخبار کی فائل کو ان کے فرزند جناب حضور امام کاظمی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے کئی سالوں کی محنت کے بعد لاکھوں روپے کے مصارف اٹھا کر تقریباً مکمل کیا ہوا ہے۔ اگر حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر نے ’’پاکستان‘‘ اخبار کی فائل کو فوراً محفوظ نہ کروایا تو تحریک پاکستان کی نسبت ایک اہم اور بنیادی دستاویز سے پاکستانی قوم محروم ہو جائیگی۔